>جہاد حریًت اور علم و فضل کی سرزمین کیرانہ میںاسلامی درسگاہ اشاعت الاسلام
ایک نا بینا عالم کی سرپرستی ، فہم و فراست،دانش و حکمت،بصیرت ودانائی اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کامظہر پہلا دینی ادارہ
ڈاکٹرعظمت اللہ خان کیرانوی
کیرانہ،شمالی ہندوستان کے مغربی اضلاع میں ضلع مظفر نگر کا وہ مردم خیز قصبہ ہے جو اپنی قدیم تاریخ اور جغرافیائی اعتبار سے بڑی انفرادیت اور امتیازی روایات وشان کا حامل رہا ہے۔علمائے دیوبند کی تاریخ ہویا مشائخ کاندھلہ کا تذکرہ ،یا داستان جہاد حریت اور فلسفہ زبان و ادب ،کیرانہ کا تذکرہ کیے بغیر نا مکمل ونا تمام ہے۔
قصبہ کیرانہ کی زمین شروع ہی سے علم وفضل،شعرو ادب،اخلاق ومذہب،شعورو آگہی،وجدان و عرفان،جہاد حریت اور اعلائے کلمتہ الحق کے لیے مشہور رہی ہے۔یہاں جلیل القدر علمائے کرام،مشائخ المرتب ،مشائخ اولیائے کرام،مبلغین اسلام،زبان و ادب کے ماہر،درس و تدریس کے مایہ ناز اساتذہ،علوم و فنون کے ممتاز اہل فکرو نظر کے علاوہ استخلاص وطن کے لیے بے مثال سرفروش مجاہدوں اور جنگ آزادی کے لیے کفن بدوش جانباز وں نے اپنی خدمات اور عظیم الشان کارناموں سے اس سر زمین کو شرف و افتخار بخشا ہے۔
اگر ماضی میں ہندوستان کی جنگ آزادی کے صف اول کے مجاہد مولانا رحمت اللہ کیرانوی ؒ نے انگریزوں کے خلاف نعرہ حق بلند کرکے کلمتہ الحق کا اعلان کیا تھا اور رد ّ ©© میں مناظر ے کرکے عظیم کارنامے انجام دیے تھے اورمکہ معظمہ میں مدرسہ صولتیہ جیسی عظیم الشان دینی درسگاہ قائم کرکے تاریخ کے صفحات پر اپنا نام نامی بطور یاد گار چھوڑ ا ہے اور آفتاب و مہتاب بن کر چمکے تو آج بھی اس کیرانہ کی سرزمین کے بطن سے پیدا ہونے والی کہکشاں اپنے گردو پیش کو روشن و منور کر ہی ہے۔
مولانا وحید الزماں کیرانویؒ جیسا عربی زبان کا منفرد ادیب وقماز انشاءپرداز اور اردو زبان کے و ادب کے نباض ونقد نگار کیرانہ کے افق پرسے طلوع ہونے والے ایسے شمس و قمر ہیں کہ جن کے وجود سے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک کے بہت سے گوشے مستفیض و مستنیر ہیں ۔کیرانہ کی تاریخ ترتیب دینے والوں کے لیے یہ کام بہت مشکل ہے کہ اس سرزمین کی خاک سے پیدا ہونے والے تمام فنکاروں ،شاعروں،ادیبوں،مجاہدوں علماءمشائخ کی عظیم ترین خدمات کو قلم بند کر کے یہاں کا ایک ایک ذرہ بجائے ایک آفتاب ہے۔زمین کے اس کہکشاں کا سمیٹنا آسان کام نہیںہے ،اس کا حسن یہ ہی ہے کہ جو ستارہ جہاں ہے وہ افنے فنکارانہ محاسن سے اپنے ماحول کو درخشاں،صنوفگن ،صنو ریز اور ضیا بار رکھے۔
قصبہ میں ایک ایسا دینی ادارہ بھی ہے جو ایک نا بینا عالم کی سرپرستی ،سرکردگی میں قائم ہے،جس کے بانی و مو¿سس ومہتمم مولانا قاری نعمت اللہ قاسمی صاحب زاد مجدہ ہیں،راقم الحروف نے مدرسہ کے حالات،حسابات اور دیگر مندرجات کے ساتھ ساتھ مدرسہ میں دار دین وصادرین معزز علمائے کرام کے پاکیزہ ارشادات ومعائنہ جات دیکھے،دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کسی بھی ادارہ کو چلانے کے لیے ظاہری بصارت کافی نہیںہے بلکہ باطنی بصیرت ضروری ہے،میرے ناقص اندازہ اور مشاہدہ کے مطابق یہ ہندوستان کا پہلا مدرسہ ہے جو ظاہری بصارت سے نہیں باطنی بصیرت کے ساتھ نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ شب و روز ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔الحمد اللہ علیٰ ذالک
مہتم موصوف نے مدرسہ کی بنا وجود اور ارتقاءکی تفصیل پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں دارالعلوم میں پڑھ رہا تھا اور فراغت کا آخری سال تھا،خواب میں ایک ایسا کمرہ نظر آیا،جس کی دیواروں سے آنسو جاری ہیں اور آہ وبکا کے ساتھ یہ فریاد ہورہی ہے کہ یہاں پر پہلے ذکر الٰہی ہوتا تھا،جو اب نہیں ہورہا ہے،چند روز بعد ہی قلب یہ داعیہ پیدا ہوا کہ تعلیمی پسماندگی سے دوچار بستی میں دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے۔نگاہ انتخاب میں مغربی یوپی کے قصبہ کیرانہ پر پڑی جو یوپی ہریانہ کی سرحد پر واقع ہے جہاں کبھی مجاہد اعظم مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے حوالہ سے آزادی کا طوطی بولتا تھا ،اور سر دھڑ کی بازی لگا نے والے ہزاروں مجاہدین تار ہوتے تھے۔یہ وہی مردم خیز قصبہ ہے جہاں بہشتی زیور کے محشی مولانا حبیب احمد ؒ اور عربی زبان کے بلند پایہ ادیب مولانا وحید الزماں کیرانویؒ جیسے فاضل رہا کرتے تھے،لیکن چودھویں صدی ہجری کے آخر میں یہ علمی سوتے خشک ہوچلے تھے،علم کی جگہ جہالت نے لے لی تھی اور چو طرفہ بدعات ورسومات کا ڈنکا بج رہا تھا،ہریانہ کا ماحول بھی مد نظر رہا،جہاں ارتداد عام تھا۔العیاذ با للہ مولانا نے مزید بتایا کہ اللہ کا نام لے کر قصبہ کے محلہ افغانان میں مکتب قائم کردیا،پھر چند ماہ بعد 1961میںمحلہ دربار کلاں میں اشاعت الاسلام کے نام سے باظابطہ ادارہ بنایا گیا۔مولانا فرید الوحیدی سمیت متعدد علماءاس وقت تشریف لائے،چند برس ہی گزرے تھے کہ ایک خداترس اور صالح شخص نے خواب دیکھا کہ ایک چشمہ دربار سے نکلا اور پانی پت روڈ کی طرف بہنے لگا،اس دوران کئی جگہوں پر سنگ بنیاد رکھا گیا،لیکن کامیابی نہیں ملی1965میں پانی پت روڈ پر لب سڑک ایک بیش قیمت اراضی خرید لی گئی،جہاں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ اجل مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ،مولانا عابد حسنؒ اور علامہ رفیق احمد ؒ جیسے بزگزیدہ اور سرکردہ علماءنے بنام خدا سنگ بنیاد رکھا تبھی سے ملک اور بیرون ملک کے علماءوصلحا کی آمد شروع ہوگئی اور پہلے ہی سال سے یہاں سے قرآن شریف کے حفاظ تیار ہونے لگے۔دربار کلاں میں شاخ آج بھی جاری ہے۔ایک دہائی بعد وہ وقت بھی آیا جب حکیم الاسلام مولانا قاری طیب ؒ مہتمم دارالعلوم نے ادارہ کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا،ادارہ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ رئیس التبلیغ حضرت مولانا انعام الحسنؒ اور مولانا عمر پالنپوریؒ جیسے عبقری افراد یہاں جلوہ افروز ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس ادارہ کو مدنی خاندان سے خصوصی مناسبت رہی ہے،چنانچہ زمانہ طالب علمی میں ہی شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اس ناکارہ کو بیعت کرلیا،یہ سعادت کم ہی خوش نصیبوں کو حاصل ہوئی ہے۔ادارہ کے سالانہ اجلاسوں میں تقریباً اپنی حیات کے 30برسوں میں امیر الہند فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ برابر شرکت فرماتے رہے ہیںاور بار ہا بلا کسی پروگرام کے بھی حضرت کی تشریف آوری ہوتی رہی ہے،مدنی خانوادہ کی یہ نسبت آج بھی جاری ہے،موجودہ صدر جمعیت علماءہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا محمودمدنی نیز دارالعلوم دیوبن کے نائب مہتمم مولانا قاری عثمان صاحب مسلسل آتے رہے ہیں۔
غرض یہ کہ مدرسہ دیکھے بغیر مہتمم مدرسہ کی بصیرت کی داد نہیں دی جاسکتی۔یہ مدرسہ ان کی فہم و فراست،دانش و حکمت،بصیرت ودانائی اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا نہ صرف مظہر ہے بلکہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے اور وسیع و عریض قطعہ آراضی کے لحاظ سے بہت مناسب اور نہایت موزوں ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر زیر تعمیر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے تو یہ تعمیر مکمل ہونے کے نہ صرف پورے کیرانہ بلکہ اس کے ملحقات ومضافات میں اس کی مثال نہیں ہوگی۔
مدرسہ کے بانی و مو¿سس حضرت مولانا قاری نعمت اللہ قاسمی نے اپنے وطن جلال آباد ضلع مظفر نگر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒاور مسیح الا مت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ کی مجالس میں شرکت کی اور ان سے فیض حاصل کیا،اس کے بعد آپ ام المدارس دار العلوم دیوبند نا بینا ہونے کے باوجود اعلیٰ نمبرات سے سند فراغت حاصل کی۔موصوف نہ صرف فن قرا¿ت وتجوید کے مستند استاذ ہیں بلکہ صاحب استعدادعالم دین اور تقویٰ وطہارت ودایانت کی پاکیزہ زندگی گزارنے والے محطاط بزرگ ہیں۔آپ نے فن تجوید کی مستند کتاب فیض الرحمان بھی تالیف کی ہے جو قرا¿ حضرات میں بے حد مقبول ہے۔فی الحال مولانا موصوف گزشتہ تین ما سے علیل ہیں اور فالج کے مرض میں مبتلا ہیں،قائرین حضرات سے صحت یابی کی دعاءکی درخواست ہے۔
موصوف نے 45برس قبل کیرانہ مشہور شاہی مسجد دربار میں مدرسہ کا آغاز کیا تھا،تین سال کے بعد کیرانہ شاملی بس اسٹینڈ سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر جانب مغرب پانی پت روڈ پر با لکل غیر آباد جگہ پر یہ مدرسہ عربیہ اشاعت الاسلام قائم کیا18بگھ زمین خریدی گئی،چار بگھ آراضی میں مدرسہ کی اسلامی عمارات کا سلسلہ موجود ہے،باقی زمین پر باقاعدہ کاشت ہوتی ہے۔مدرسہ میں10درس گاہیں تیار 10کمروں پر مشتمل طلبا کے لیے دارالاقامہ ہے،مدرسہ میں شاندار رحمت اللہ ہال ہے،مطبخ اور مہمان خانہ بھی ہے،شاندار اسلامی عمارات کی عکاسی پیش کرہی مسجد ہے ،وضو خانہ ہے۔ایک سو سے زائد بیرونی طلبہ ہیں جن کفالت مدرسہ کے ذمہ ہے۔پرائمری درجات یکم تا پنجم،ہندی انگلش،درجہ حفظ و ناظرہ قرآن پاک کے علاوہ عربی درسیات کی بھی تعلیم ہے۔ماہانہ مصارف ایک لاکھ روپے سے زائد ہیں۔مہتمم مدرسہ کے بڑے بیٹے مولانا برکت اللہ امینی صاحب پورے اخلاص اور تندہی سے دست راست بن کر مدرسہ کے تعمیری اور تعلیمی کاموں میں مصروف ہیں۔
یہاں سے فراغت کے بعد طلبا دارالعلوم دیوبند،ندوة العلماءلکھنو،مظاہر العلوم سہارنپور وغیرہ میں داخلہ لے کر اپنی بقیہ تعلیم مکمل کرتے ہیں۔نائب مہتتم مولانا برکت اللہ امینی نے بتایا کہ اب تک ایک ہزار سے زائد حفاظ کرام فارغ ہوچکے ہیں،جو باقاعدہ تجوید کا کورس بھی مکمل کر کے گیے ہیں۔مجموعی طور پر مدرسہ کا نظم معقول اور صحیح ہے حسابات واضح اور مکمل ہیں اور مدرسہ کے کاغذات مدرسہ کےلیے مفید ہیں۔
اہل کیرانہ کو کو خصوصاً شکر گزار ہونا اور مرہون منت ہونا چاہئے کہ ان کی بستی میں ایک ایسا ادارہ قائم ہے جس نے اپنے قیام کے قلیل عرصہ میں زبر دست ترقی کی ہے اور بجا طور پر ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے اور اپنا ہر ممکن تعاون پیش کرتے رہنا چاہئے۔راقم الحروف کا تعلق چونکہ کیرانہ سکی سرزمین اورمہتمم مدرسہ سے ہے اس لیے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اپنے وطن کا مدرسہ ہے اور اس کے ذمہ داران اس کے عزیز ہیں،اس لیے اس کی تعریف کی جائے،نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ جو حقیقت ہے اس کو سپرد قلم کرنے میں کوئی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔
مجھے امید ہے کہ یہ چند سطور جو بہت ہی عجلت میں سپرد قلم کی گئیں،مدرسہ کے بارے میں نہ صرف اہل کیرانہ بلکہ عام ملت مسلمہ کے لیے اطمنان و یقین،بھروسہ اور اعتماد کا موجب ہوں گی۔ارباب خیر سے مو¿دبانہ ،برادرانہ اور مخلصانہ اپیل ہے کہ وہ مدرسہ کے بقیہ تعمیری پروگراموں میں بھر پور حصہ لیں تاکہ پوری دل جمعی اور سکون کے ساتھ مدرسہ کے ذمہ داران مدرسہ کے تعلیمی ارتقاءپر اپنی توانائیاں صرف کرسکیں۔ ربطہ نمبر۔09368272122
(مضمون نگار اخبار مشرق میں کیرانہ کے چیف بیورو ہیں)
No comments:
Post a Comment