Tuesday, April 20, 2010

قومی حکومتیں مدارس کو غلط انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئیںمولانابرکت اللہ

کیرانہ، 20اپریل(عظمت کیرانوی)ہمارے ملک ہندوستان کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آج تک کی ساری قومی حکومتیں ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف امتیازی سلوک کرتی چلی آرہی ہیں بلکہ ان کی زندگی کی راہوں میں اڑچنیں پیداکرتی رہی ہیں۔ ملک کے اقتدار پر قابض اس گروہ کی غفلت شعاریوں بلکہ قانون وانصاف سے عاری اس ظالمانہ رویہ کو خود حکومت کی قائم کردہ سچر کمیٹی نے اس طرح طشت از بام کردیا ہے کہ اسے کسی حیلہ و تدبیر سے چھپایا نہیں جاسکتا ہے۔ان خیا لات کا اظہار دینی ادارہ اشاعت الاسلام کے نائب ناظم مولانا برکت اللہ امینی نے ایک خصوصی ملاقات میں کیا۔انہوں نے استفہامیہ انداز میں کہاکہ اس جمہوری سیکولر ملک میں اپنے مذہب، زبان، کلچر اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کے لیے اپنے ادارے قائم کرنا ملک کے ہر باشندہ کا دستوری حق ہے۔ اپنے اسی حق کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنے مدارس اور مذہبی ادارے قائم کررکھے ہیں مگر ہماری قومی حکومتیں ان مدارس کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی ہیں اور مسلمانوں سے ان کے اس آئینی حق کو چھین لینے کے لیے ہر طرح کی خلاف قانون اورناجائز تدبیریں کرتی رہتی ہیں۔ انھیں تدبیروں میں ایک نئی تدبیر ”مرکزی مدرسہ بورڈ“ کے نام سے ”مرکزی وزارت تعلیم و فروغ انسانی وسائل “ کی جانب سے کی جارہی ہے۔موصوف نے کہا کہ اب تک جھوٹ، فریب، جبر، ظلم اور خلاف قانون وآ ئین فیصلوں کے ذریعہ ان مدارس پر قدغن لگانے اورانھیں بے جان بنادینے کی ناکام کوششیں کی جاتی رہی ہیں ،مگر اب شاطران سیاست نے سیم وزر کی لالچ کے اسلحہ سے مدارس پر شب خون مارنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ ایک ایسا دام ہم رنگ زمیں ہے جس کا صحیح ادراک بادی النظر میں نہیں ہوگا اس لئے خدانخواستہ اگر مدارس اس میں پھنس گئے تو پھر کبھی اس جال سے آزاد نہیں ہوسکیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ دین ومذہب کے یہ سرچشمے ہمیشہ کے لیے خشک ہوجائیں گے اور اس کے بعد ملت اسلامیہ ہند کا انجام کیاہوگا اس کے تصور سے روح ایمانی تھرّا جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضا یہ کہ ”مرکزی مدرسہ بورڈ“ اوراس کے مالی وظائف کے پردے میں چھپی تباہ کاریوں کو پورے طور پر برہنہ کیا جائے تاکہ اصل مدارس اس سے اپنے دامن کو بچائے رکھیں۔جبکہ وطن عزیز کو سامراج کے پنجہ استبداد سے رہائی دلانے والے ملک کے معماروں نے جب آزاد ہندوستان کا آئین وضع کیا تو بلا امتیاز ذات ونسل اور زبان ومذہب ملک میں بسنے والی ساری اکائیوں کے زندگی سے متعلق جملہ حقوق کا بھرپور تحفظ کیا اور مذہب، زبان، نسل کی بنیاد پر کسی طرح کے فرق کو روا نہیں رکھا جس سے ان کی وسعت قلبی، فکرونظر کی بلندی اور ملک و قوم کے حق میں بے لوث جذبہ اخلاص ومحبت کا پتہ چلتا ہےچنانچہ انھیں کے پیرو اور نام لیوا جب مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تو اپنی تنگ نظری اور تنگ ظرفی کی بناء پر دستور کے تحفظات کو نظر انداز کردیا۔
عظمت اللہ خان
09368272122

No comments:

Post a Comment